No title

News Buzz
0

 *کیا ہم واقعی اپنے دماغ کا صرف دس فیصد استعمال کرتے ہیں؟ انسان کے دماغ کی گہرائی میں کیا راز چھپا ہے؟*


آپ سب نے یہ بات سن رکھی ہو گی کہ انسان اپنے دماغ کا صرف دس فیصد حصہ استعمال کرتے ہیں؟ یا جیسا کہ سائنٹیفیک دنیا میں بھی تقریباً سو سال تک یہ خیال غالب رہا کہ انسان اپنی cerebral capacity کا صرف دس فیصد ہی استعمال کرتا ہے۔ بلکہ 1929ء میں تو world book of facts نے یہ بات اپنی کتاب میں بھی شامل کی تھی۔ پھر اس پر بہت سی موویز بھی بنیں جن میں lucy اور limitless جیسی بہترین فلمیں تھیں۔ افسوس کہ یہ ایک myth تھا۔

کیونکہ ہمیں یہ سوچ کر بڑی ایکسائیٹمنٹ ہوتی تھی کہ واہ ! اگر ہم اپنا سو فیصد دماغ استعمال کریں تو پھر نہ جانے، ہم کیا کچھ حاصل کر لیں۔ اس myth کا آغاز دراصل ایک غلط فہمی سے ہوا جب 1890ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے william james اور boris sidis نامی دو ماہرین نفسیات نے اپنی تحقیق میں اس بات کا دعویٰ کیا۔ ہوا یوں تھا کہ ہمارے دماغ کا صرف 20 فیصد حصہ نیورانز نامی سیلز پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ نیورانز ہی اصل میں الیکٹریکل اور کیمیکل سگنلز کے ذریعے تمام انفارمیشن کنٹرول کرتے ہیں جبکہ باقی کا 80 فیصد حصہ glial نامی سیلز پر مشتمل ہوتا ہے جس کا آسان زبان میں کام نروس سسٹم کو صرف سپورٹ کرنا ہوتا ہے اور 27 اکتوبر 2010ء کو magneto encephalography نامی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے یہ ثابت ہوا کہ ایک عام حالت میں انسان 35 فیصد سے زیادہ دماغ کا استعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ کبھی کبھار حقیقت ، ایک myth سے زیادہ ناقابل یقین ہوتی ہے۔

آپ جانتے ہوں گے کہ دماغ کے ان صرف 20 فیصد نیوران سیلز کی تعداد 86 ارب سے زیادہ ہے؟ یہ نیورانز آپس میں مل کر ایک نیٹ ورک بناتے ہیں جس کے 100 ارب تک کنیکشن ہو سکتے ہیں آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے دماغ میں موجود کنیکشنز کی تعداد ہماری اس پوری کہکشاں ملکی وے کے ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہے لیکن اس تھریڈ کا مقصد نیورانز کی تعریف بیان کرنا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ 

آپ کو یاد ہے میں نے کہا تھا کہ کبھی کبھار حقیقت ، کسی بھی myth سے زیادہ ناقابل یقین ہوتی ہے؟ دراصل ہمارے دماغ کے یہ 86 ارب نیورانز مل کر ایک ذہن تشکیل دیتے ہیں، جسے ہم نے مختلف نام دے رکھے ہیں۔ آپ اسے مائنڈ کہہ لیں ، ذہن کہہ لیں یا سوچ کہہ لیں جسے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، شعور اور تحت شعور ۔ تقریباً ہم سب ہی اس بارے میں جانتے ہیں۔ شعور وہ ہوتا ہے جس میں ہماری تمام سوچیں ، خواہشات اور جو بھی چیز ہم دیکھتے ، سنتے ، سمجھتے یا محسوس کرتے ہیں ، قید ہے۔ لیکن تحت شعور ، ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہے ، جہاں ہر چیز جا کر محفوظ ہو جاتی ہے ، اپنی پیدائش سے لے کر آج تک ہم نے جو کچھ کیا ، جو کچھ سنا ، جو کچھ محسوس کیا ، جو کچھ سیکھا ، وہ سب ، اس تحت شعور میں جا کر محفوظ ہو جاتا ہے اور یہیں سے میرے اس تھریڈ کا اصل مقصد شروع ہوتا ہے۔

امریکہ کی ایک جرنلسٹ marianne maszak نے 28 فروری 2005ء کو ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ہمارا شعوری حصہ تو صرف 5 فیصد ہے ، آج کوئی بات سنی ، کل بھول گئی ، آج ایک چیز دیکھی ، دوبارہ کبھی اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں لیکن ہمارے ذہن کا اصل 95 فیصد حصہ تو تحت شعور ہے۔ جہاں اپنی پیدائش سے لے کر جو دیکھا ، جو سنا ، جو سیکھا ، جو سمجھا ، جو محسوس کیا ، جو کہا ، جو تجربہ کیا وہ سب محفوظ ہے اور جس تک ہماری رسائی انتہائی محدود ہے بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن کیا ہو گا ۔۔۔ اگر ہم اپنے شعور کے مکمل سو فیصد تک رسائی حاصل کر لیں تو؟

سٹیج 1۔ سب سے پہلے ہماری موٹر سکِلز بہتر ہونا شروع ہوں گی ، ہماری لکھائی میں غلطیوں کے چانسز کم ہوں گے ،muscle memory بہتر ہونے سے ہمارا نشانہ بھی اچھا ہو گا ، پینٹنگز اور ڈرائینگز بناتے وقت ہمارے ہاتھ کا کنٹرول بہت نکھر جائے گا اور ہماری زبان سے slip of tongue ختم ہو جائے گا ۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنے جسم پر کنٹرول بہتر ہو جائے گا، مثال کے طور پر ایران کا بدنام زمانہ سنائیپر شوٹر عبدالرسول زرین سنائپر رائفل سے شوٹنگ کرتے وقت اپنے دل کی دھڑکن کو اس قدر کنٹرول کر لیتا تھا کہ اس کے ہاتھ کی قدرتی جنبش میں 95 فیصد تک کمی ہو جاتی تھی۔


سٹیج 2۔ ہماری تخلیقی صلاحیتیں ایکٹیویٹ ہونا شروع ہو جائیں گی۔ چودہویں صدی کا مشہور اٹالین آرٹسٹ لیونارڈو ڈاونچی ایک وقت میں دونوں ہاتھوں سے الگ الگ خطوط لکھ لیتا تھا اور ایک ہی وقت میں دونوں ہاتھوں سے الگ الگ پینٹنگز بنا لیتا تھا۔ ایسے ہی جب پوپ بینیڈیکٹ نے giotto نامی آرٹسٹ کو اپنے آرٹ کا ثبوت دینے کا چیلنج دیا تو giotto نے فری ہینڈ ایک پرفیکٹ دائیرہ بنا کر دکھایا جو آخری ملی میٹر تک ایک پرفیکٹ سرکل تھا۔ 

سٹیج 3۔ ہماری patterns کو پہچاننے کی صلاحیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی، ہماری سٹریٹیجی بنانے کی سکِلز ، آپ نے garry kasparov کا نام سن رکھا ہے؟ یہ وہ واحد شخص ہے جس نے 1996ء میں IBM کے کمپیوٹر deep blue کو شطرنج کے کھیل میں مات دی تھی۔ آپ نے مشہور ناولز lord of the rings کا نام بھی سن رکھا ہو گا؟ اس کے مصنف j.r.tolkien نے کہانی کے کرداروں کے لیے elvish نامی پوری ایک زبان تخلیق کی تھی اور یہ وہ عمل ہے جو دہائیوں میں ہوتا ہے۔

سٹیج 4۔ ہماری یاداشت بہت زیادہ بہتر ہو جائے گی، آپ نے ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھا یا سنا ہو گا جنہیں ہزاروں ٹیلیفون نمبرز یاد ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے کسی زبان کو سیکھنا حیران کن حد تک آسان ہو جائے گا۔ آپ نے الفارابی کا نام سن رکھا ہے؟ دسویں صدی کے مسلم سائنسدان وہ کم سے کم 60 زبانیں بولنا جانتے تھے۔ ایسے ہی سترھویں صدی اٹلی کا ایک پادری giuseppe caspar چالیس لہجوں میں 38 زبانیں بول لیتا تھا۔


سٹیج 5 ۔ اس سٹیج پر ہم اس قدر بہترین انداز میں pattern recognition کر سکیں گے کہ جانوروں کے بولنے کے پیٹرنز کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن ہو جائے گا مثلاً 20 سالہ ریسرچ کے بعد شہد کی مکھیوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ پولن اکٹھا کرنے کے لیے پھولوں کی موجودگی اور چھتے سے ان کی دوری کے بارے میں انفارمیشن خاص طریقے سے پر پھڑپھڑانے کے انداز میں اپنی کالونی سے شیئر کرتی ہیں۔ اس پیٹرن کو سمجھنے میں انسان کو بیس سال لگے لیکن امیجن کریں کہ اگر آپ جانوروں کے کمیونیکیشن پیٹرن کو آسانی سے سمجھ سکیں تو کیا یہ صلاحیت جانوروں کی بولیاں سمجھنے میں نہیں آئے گی؟ 

سٹیج 6۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ انسانی دماغ کے نیورانز الیکٹریکل سگنلز کے ذریعے آپس میں کمیونیکیٹ کرتے ہیں، اگر تمام نیورانز مکمل فنکشنل ہوں تو ایک عام انسانی دماغ 23 watt تک کی بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اس سٹیج پر پہنچ کر ہم اِنفیکٹ نہ صرف اپنے خوابوں کو manipulate کر سکیں گے بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس مہین سی electromagnetic wave کے ذریعے سے اپنی سوچ اپنے قریب موجود لوگوں کے ذہنوں پر پروجیکٹ بھی کر سکیں، یہ بہت ممکن ہے۔

اس ہی سٹیج پر ایک اور افیکٹ یہ ہو گا کہ آپ اپنے جسم کے میٹابولزم کو مکمل طور پر کنٹرول کر سکنے کے حامل ہو جائیں گے، میٹابولزم کسی بھی جسم میں ہونے والے کیمیکل ری ایکشنز کو کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں آپ کافی حد تک اپنے دل کی دھڑکن تقریباً روکنے سے لے کر اپنے جسم میں ہونے والے نظام انہضام تک کو کنٹرول کر سکیں گے۔

سٹیج 7۔ اس سٹیج پر ہمارا شعور ، اپنی خالص ترین صورت میں ، ہم پر واضح ہو گا۔ ہمارے شعور کے وہ گہرے اور پراسرار حصے جو تب بھی آگاہ تھے، جب ابھی ہم ماں کے پیٹ میں تھے اور ہم میں روح پھونک دی گئی تھی اور ہمارا شعور ہم سے پہلے بھی زندہ تھا-

ہمارے شعور کے اس حصے میں شاید صرف ایک سچا پیغام ایک عہد ، ایک وعدہ ہوگا ، لکھا ہوا ہو گا ، آپ جانتے ہیں کیا؟ 

"جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی ، اور ان سے عہد لیا ، کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ، ہاں ۔۔۔ ہم اقرار کرتے ہیں۔ الاعراف 172"

وہ عہد الست ؛ جو ہمارے رب نے ہمارا شعور پیدا کرتے ہی ہم سے لیا تھا کہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ہم نے اقرار کیا تھا کہ اے ہمارے رب ! ہم تیرے سواء کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ 

یہ عہد ہماری روح اور شعور کی گہرائیوں میں پتھر کی تحریر کی طرح کھدا ہوا ہے اور شاید اسی لیے ہم یہ بات مانیں یا نہ مانیں لیکن ہمارا دل ہمیں صحیح اور غلط کا فرق ضرور بتا رہا ہوتا ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
To Top