General Knowledge

News Buzz
0

 *جغرافیہ دریائے نیل کا*

قدرتی وسائل کے علاوہ افریقہ میں پانی کی فراوانی ہے۔ اس کے دریا تجارت کے لئے اچھے تو نہیں لیکن بجلی بنانے کے لئے ہیں۔ اور یہ بھی ممکنہ تنازعات کی وجہ ہے۔

دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے (4160 میل لمبا)۔ اور یہ دس ممالک کو متاثر کرتا ہے۔ برونڈی، کانگو، اریٹریا، ایتھیوپیا، کینیا، روانڈا، سوڈان، تنزانیہ، یوگینڈا اور مصر۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے مورخ ہیروڈوٹس نے کہا تھا کہ “مصر نیل ہے اور نیل مصر”۔ یہ ابھی بھی درست ہے اور نیل کا مصر میں سات سو میل کا حصہ ہے۔ بہترین اور سفر کے قابل یہ حصہ قاہرہ کے لئے اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے یہ جنگ کرنے کے لئے تیار ہے۔

 اگر نیل نہ ہو تو مصر نہیں ہو گا۔ یہ بڑا ملک ہے۔ اس کی ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی کا بڑا حصہ نیل سے چند میل کے اندر اندر ہی رہتا ہے۔ اور ان علاقوں میں یہ دنیا کی سب سے گنجان آباد علاقوں میں ہے۔

مصر اس وقت بھی ایک قوم اور تہذیب تھی جب یورپی گارے کی جھونپڑیوں میں رہ رہے تھے۔ لیکن یہ کبھی بھی علاقائی طاقت سے زیادہ نہیں رہا۔ اس کی تین اطراف میں صحرا ہے۔ یہ بحیرہ روم کے خطے کی بڑی طاقت بن جاتی لیکن اس کا ایک اور مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ درختوں کا ہے۔ مصر میں درخت بہت ہی کم ہیں۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پاس درخت نہیں ہیں تو آپ بڑی بحریہ نہیں رکھ سکتے جس سے اپنی طاقت کا اظہار کریں۔ اس کے پاس بحریہ رہی تو ہے لیکن اس کے لئے یہ دیودار کی لکڑی لبنان سے درآمد کرتا تھا تا کہ بحری جہاز بنا سکے۔ یہ بحریہ طاقتور نہیں رہی۔

جدید مصر تمام عرب ممالک سے زیادہ طاقتور فوج رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکہ سے ملنے والی ملٹری امداد ہے۔ لیکن صحرا، سمندر اور اسرائیل اسکو باندھ دیتے ہیں۔

مصر کے لئے اپنی ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی کے لئے خوراک فراہم کرنے کی جدوجہد آسان نہیں رہے گی۔ سینا میں اسے مسلح تنظیموں سے خطرہ ہے۔ اور ایک چیلنج سوئز نہر کی حفاظت کا ہے۔ دنیا کی آٹھ فیصد تجارت یہاں سے ہوتی ہے۔ روزانہ دنیا کا ڈھائی فیصد تیل یہاں سے گزرتا ہے۔ اگر یہ بند ہو جائے تو یورپ تک سفر میں پندرہ دن کا اور امریکہ تک سفر میں دس دن کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ اسرائیل سے پانچ جنگیں لڑ چکا ہے۔ لیکن جس ملک سے آئندہ جنگ کا خطرہ ہے، وہ ایتھیوپیا ہے۔ اور مسئلہ دریائے نیل ہے۔ اس براعظم کے دو سب سے پرانے ملک اپنی بڑی فوجوں کے ساتھ شاید پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں۔

ایتھیوپیا سے Blue nile شروع ہوتا ہے اور سوڈان کے درالحکومت خرطوم کے قریب White nile سے ملتا ہے۔ پھر نوبیا کے صحرا سے بہتا ہوا مصر پہنچتا ہے۔ اور اس وقت زیادہ تر پانی Blue nile کا ہوتا ہے۔

ایتھیوپیا کو افریقہ کی پانی کی ٹینکی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بلندی پر ہے اور یہاں پر بیس ڈیم ہیں جو کہ پہاڑوں کی بارش کا پانی اکٹھا کرتے ہیں۔ 2011 میں ایتھیوپیا نے اعلان کیا کہ یہ سوڈان کی سرحد کے قریب دریائے نیل پر چین کی مدد سے بڑا ڈیم بنانے جا رہا ہے۔ یہ Grand Ethiopian Renaissance Dam ہے جو افریقہ کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ 2020 میں اس کا آغاز ہوا۔ اور اس کا کام بجلی بنانا ہے اور یہاں سے آگے مصر چلا جائے گا۔ لیکن یہ ایتھیوپیا کو اس بات کی صلاحیت دیتا ہے کہ مصر کا پانی کنٹرول کر سکے اور اگر چاہے تو خود استعمال بھی کر سکے۔ کیونکہ اس میں ایک سال تک کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ مصر کے لئے خطرہ ہے۔

اس وقت مصر کی ملٹری زیادہ طاقتور ہے لیکن یہ آہستہ آستہ بدل رہا ہے۔ ایتھیوپیا دس کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ اور تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ مصر کو اس کا علم ہے۔ ڈیم بننے کے بعد اس کو تباہ کرنے کا مطلب ایتھیوپیا اور سوڈان میں سیلاب سے تباہی ہو گا۔ اگرچہ مصر میں اس آئیڈیا پر بحث ہوتی رہی ہے لیکن یہ ایسا عملی طور پر نہیں کر سکتا۔ ایتھیوپیا نے ڈیم کی حفاظت کے لئے کئی جدید دفاعی سسٹم نصب کئے ہیں جو کہ روس اور اسرائیل سے لئے گئے ہیں۔ 

اس صدی میں پانی پر جنگیں ہو سکتیں ہیں اور یہ ایک ایسے تنازعے کی ممکنہ جگہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افریقہ کے تنازعات کا ایک مائع پانی ہے جبکہ ایک اور گرما گرم مائع تیل ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
To Top